ar.saghar

Add To collaction

26-Jul-2022 لیکھنی کی کہانی -

🌹سعادت حسن منٹو کے ساتھ لڑائی🌹
پہلی قسط۔۔
                   ساون کی بارش شروع ہو چکی تھی گھر میں بیٹھا اداس ہو رہا تھا۔ ایک تو ہجر زادہ اوپر سے ساون کا قہر ڈھاتا موسم۔ دل بے چین ہوا روح بے قرار ہوئی تو سوچا شہر لاہور کی ہیرا منڈی کا چکر لگا آتا ہوں۔ موسم بھی عاشقانہ ہے دل بھی اداس ہے تتلیاں دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی۔ چونکہ تنہائی بھی انسان کے لئے فرسان روح ہے۔ اس لئے یہ خیال بار بار دماغ کو ستانے لگا۔ بالآخر ناصر کاظمی صاحب کے تصور کے مطابق نہا دھو کر کپڑے بدل کر بال بنا کر ساتھ میں پشاوری خوشبو لگا کر ہیرا منڈی کی جانب چل پڑا۔ کہتے ہیں دل عشاق کی جنت ہے یہ جگہ۔ خیر ہیرا منڈی پہنچتے ہی اپنے آپ کو شہزادہ سلیم سمجنھے لگ گیا۔ عجیب دلفریب نظارے تھے جو آنکھوں کے سامنے تھے کئی نازنین دلنشین بالکونی کے جھروکوں سے آتے جاتے منچلوں کو دیکھ رہی تھیں۔ کچھ نے کرسیاں لگا رکھی تھی۔ زرق برق پوشاکوں میں ملبوس اشاروں کنایوں میں راہ گیروں کو اپنی جانب متوجہ کر رہی تھیں۔ دل تو میرا بھی بڑا چاہ رہا تھا کہ کسی نازنیں کی خلوت میسر آئے تو جسم و روح کی آگ کی ٹھنڈک کا ساماں ہو۔ مگر سچ یہ ہے مجھے کسی خاص تتلی کی تلاش تھی جو جوانی سے بھرپور ہو خواہشات کا سمندر اس کے بدن دلنشیں سے جھلک رہا ہو دیکھتے ہی بدن کو چور چور کردے۔ فی الحال ایسی حورِ خاکی مرمریں بدن نظر نہیں آئی۔ تسکین روح و جسم کے لئے بے اختیار قدم بڑھاتے بڑھاتے بازار کی عقبی جانب چل پڑا تاہم یقین مانیں ابھی تک جس انداز میں میرا سواگت ہو رہا تھا وہ ناقابل بیان ہے البتہ دو باتیں بتانا پسند کروں گا جس میں "ہوائی بوسے" اور "ہائے او چکنے" جیسے بول کافی مرتبہ سننے کو ملے۔
                      چلتے چلتے ایک عجیب منظر آشکار ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بالکونی جس کے نیچے پان سگریٹ کی دکان تھی اوپر دبیز ریشمی پردے کھڑکیوں سے دکھائی دے رہے تھے جس پر ایک جانب جناب سعادت حسن منٹو صاحب مسہری پر گاؤ تکیہ لگائے ایک ہاتھ میں سگریٹ سلگائے دوسرے ہاتھ میں قلم پکڑے ایک نازنیں کے سینے کے ابھاروں کی جانب انتہائی مشتاقانہ نگاہ سے گھورے جا رہے تھے جبکہ وہ نازنیں ہاتھ میں شربت کا گلاس پکڑے تھوڑا سا سامنے کی طرف جھک کر انتہائی مؤدبانہ انداز میں منٹو صاحب کو شربت پیش کر رہی تھی۔ منٹو صاحب کے لبوں پر ایک للچاتی مسکراہٹ دکھائی دے رہی تھی۔ میرے دل میں حسد بھرا ملاں جاگ اٹھا لاحول ولاقوۃ الاباللہ ۔ یہ کیا بد تمیزی ہے اتنا بڑا لکھاری ہے اور کرتوت اس طرح کے۔ پہلے تو سوچا جانے دیں بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کی ضرورت نہیں۔ مگر اندر کی جلن نے اوپر جانے پر مجبور کر دیا۔ ایک تو حسینہ تیکھے نقوش سرخ بوٹے دار لباس اور اوپر سے اس کے انداز قاتلانہ نے دل کے بلب فیوز کر دیئے تھے۔ بے اختیار کوٹھے کے زینے کی طرف بڑھا گھوڑے کے طرح سیڑھیاں پھلانگتا ہوا چشم زدن میں منٹو کے روبرو کھڑا ہوا۔ ، آداب عرض ہے، اگرچہ دل میں جلن تھی مگر لبوں پر مصنوعی مسکراہٹ سجاتے ہوئے ناچار کہنا پڑا
                    منٹو صاحب نے ایک اچٹتی نگاہ مجھ پر ڈالی سر کو ہلکی سی جنبش دی اور سامنے بیٹنھے کا اشارہ کیا۔ اس دوران اس حسیں ماہ جبیں سے بھی آنکھیں دو چار ہوئیں ہلکی سی مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا۔ شاید یہ بات منٹو صاحب کو ناگوار گزری ترچھی نگاہ سے اس پری رخ کو اندر جانے کا حکم صادر فرمایا اور گلا کھنکارتے ہوئے میری جانب متوجہ ہوئے۔ اور فرمایا برخوردار جی فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ 

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
                                                            اے آر ساغر

   12
6 Comments

Aniya Rahman

27-Jul-2022 10:49 PM

Nyc

Reply

Shnaya

27-Jul-2022 05:18 PM

👌

Reply

Rahman

27-Jul-2022 05:12 PM

Osm

Reply